یہی تو چاہا تھا بس سانس تک رسائی ہو
سوال میرا کسی تخت و تاج کا کب تھا
گئے دنوں کو میں سر پر اٹھائے پھرتا ہوں
تمہارے بعد کسی کام کاج کا کب تھا
مرض سے کیسے کیا جائے اب گلہ کوئی
ذرا سا شوق یہاں بھی علاج کا کب تھا
شبِ فراق کو ہر سحر ہنس کے کہتی ہے
اسے بتاو کہ وعدہ ہی آج کا کب تھا
Comments
Post a Comment