کون کہتا ہے کہ تجھ سی کوئی صُورت نہ ملی
ہاں مگر مجھ کو تیری یاد سے مُہلت نہ ملی
درد چمکا کہ میری رُوح میں سُورج اُترا
عمر بھر راہِ وفا میں کہیں ظلمت نہ ملی
زندگی آج بھی بھر پور ہے ان کے دم سے
جن کو فرہاد کے انجام سے عبرت نہ ملی
مجھ کو اس شخص کے افلاس پہ رحم آتا ہے
جس کو ہر چیز ملی، صرف محبّت نہ ملی
وہ بھی کیا عِلم کہ جس سے تجھے اے بحرِ علوم
دل کی وسعت نہ ملی، غم کی دیانت نہ ملی
سرِ بازار کہیں جُرم نہ ہو ہنسنا بھی
سرِ دربار تو رونے کی بھی رخصت نہ ملی
مار ڈالے گا اُسے جُرم کا احساس ندیمؔ
قتل کر کے جسے، مقتول پہ سبقت نہ ملی
جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی
آئے ہیں اس کی سمت سے پتھر کبھی کبھی
ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا
یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی
یاں تشنہ کامیاں تو مقدر ہیں زیست میں
ملتی ہے حوصلے کے برابر کبھی کبھی
آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں
دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی کبھی
منزل کی جستجو میں جسے چھوڑ آئے تھے
آتا ہے یاد کیوں وہی منظر کبھی کبھی
مانا یہ زندگی ہے فریبوں کا سلسلہ
دیکھو کسی فریب کے جوہر کبھی کبھی
یوں تو نشاط کار کی سرشاریاں ملیں
انجام کار کا بھی رہا ڈر کبھی کبھی
دل کی جو بات تھی وہ رہی دل میں اے سرورؔ
کھولے ہیں گرچہ شوق کے دفتر کبھی کبھی
Comments
Post a Comment