تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسنِ یزداں سے تجھے حسنِ بتاں تک دیکھوں
تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسنِ بیاں تک دیکھوں
میرے ویرانہء جاں میں تیری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں
وقت نے ذہن میں دھندلادیئے تیرے خدوخال
یوں تو میں توٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں
یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں
بہار آئی ہے بلبل درد دل کہتی ہے پھولوں سے
کہو تو میں بھی اپنا درد دل تم سے بیاں کر لوں
ہزاروں شوخ ارماں لے رہے ہیں چٹکیاں دل میں
حیا ان کی اجازت دے تو کچھ بیباکیاں کر لوں
کوئی صورت تو ہو دنیائے فانی میں بہلنے کی
ٹھہر جا اے جوانی ماتم عمر رواں کر لوں
چمن میں ہیں بہم پروانہ و شمع و گل و بلبل
اجازت ہو تو میں بھی حال دل اپنا بیاں کر لوں
کسے معلوم کب کس وقت کس پر گر پڑے بجلی
ابھی سے میں چمن میں چل کر آباد آشیاں کر لوں
بر آئیں حسرتیں کیا کیا اگر موت اتنی فرصت دے
کہ اک بار اور زندہ شیوۂ عشق جواں کر لوں
مجھے دونوں جہاں میں ایک وہ مل جائیں گر اخترؔ
تو اپنی حسرتوں کو بے نیاز دو جہاں کر لوں
Comments
Post a Comment