زِیست آوارہ سہی ، زُلفِ
پریشاں کی طرح
دِل بھی اب ٹوُٹ چُکا ہے تِرے پیماں کی طرح
تو بہاروں کی طرح مجھ سے گُریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دِل و جاں کی طرح
زندگی تیری تمنّا کے سِوا کُچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح
تیرے عارض کے گُلابوں کی مہک اور بڑھے
تو فروزاں ہی رہے شمعِ فروزاں کی طرح
اُس کی قُربت میں گزُارے ہُوئے لمحوں کا خیال
اب بھی پیوست ہے دِل میں کسی پیکاں کی طرح
اُس کی آنکھوں میں بھی روشن ہیں تمنّا کے چراغ
اُس کا دامن بھی ہے اب میرے گریباں کی طرح
اب کسی جانِ تمنا کو بَھلا کیا معلوُم
دِل سُلگتا ہے چراغِ تہہِ داماں کی طرح
ایک دستک سی درِ دِل پہ سُنائی دی ہے
کون گزُرا ہے نسیمِ چمَنِستاں کی طرح
Comments
Post a Comment