Skip to main content

اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو


اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
مجبور کرکے مجھ کو میرے یار لے چلو


شاید یہ میرا وہم ہو،میرا خیال ہو
ممکن ہے میرے بعد اُسے میرا ملال ہو


پچھتا رہا ہو اب مجھے دَر سے اُٹھا کے وہ
بیٹھا ہو میری راہ میں آنکھیں بچھا کے وہ

اُس نے بھی تو کِیا تھا،مجھے پیار لے چلو
اب اس گلی میں کوئی نہ آئے گا میرے بعد

اس در پہ کون خون بہائے گا میرے بعد
میں نے توسنگ و خشت سے ٹکرا کے اپنا سر

گُلنار کر دئیے تھے لہو سے وہ بام و در
پھر مُنتظر ہیں وہ درو دیوار لے چلو

وہ جس نے میرے سینے کو زخموں سے بھر دیا
چھُڑوا کے اپنا دَر مجھے دَر دَر کا کر دیا

مانا کہ اس کے ظلم وستم سے ہوں نیم جاں
پھر بھی میں سخت جاں ہوں پہنچ جاؤں گا وہاں

سو بار جاؤں گا مجھے سو بار لے چلو
دیوانہ کہہ کے لوگوں نے ہر بات ٹال دی

دنیا نے میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
چاہو جو تم تو میرا مقدر سنوار دو
یارو یہ میرے پاؤں کی بیڑی اُتار دو
یا کھینچتے ہوئے سر بازار لے چلو

اُس کی گلی کو جانتا پہچانتا ہوں میں
وہ میری قتل گاہ ہے یہ مانتا ہوں میں
اُس کی گلی میں موت مقدر کی بات ہےشاہدؔ
یہ موت اہلِ وفا کی حیات ہے
میں خود بھی موت کا ہوں طلبگار لے چلو۔۔۔

اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں