اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو
مجبور کرکے مجھ کو میرے یار لے چلو
شاید یہ میرا وہم ہو،میرا خیال ہو
ممکن ہے میرے بعد اُسے میرا ملال ہو
پچھتا رہا ہو اب مجھے دَر سے اُٹھا کے وہ
بیٹھا ہو میری راہ میں آنکھیں بچھا کے وہ
اُس نے بھی تو کِیا تھا،مجھے پیار لے چلو
اب اس گلی میں کوئی نہ آئے گا میرے بعد
اس در پہ کون خون بہائے گا میرے بعد
میں نے توسنگ و خشت سے ٹکرا کے اپنا سر
گُلنار کر دئیے تھے لہو سے وہ بام و در
پھر مُنتظر ہیں وہ درو دیوار لے چلو
وہ جس نے میرے سینے کو زخموں سے بھر دیا
چھُڑوا کے اپنا دَر مجھے دَر دَر کا کر دیا
مانا کہ اس کے ظلم وستم سے ہوں نیم جاں
پھر بھی میں سخت جاں ہوں پہنچ جاؤں گا وہاں
سو بار جاؤں گا مجھے سو بار لے چلو
دیوانہ کہہ کے لوگوں نے ہر بات ٹال دی
دنیا نے میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی
چاہو جو تم تو میرا مقدر سنوار دو
یارو یہ میرے پاؤں کی بیڑی اُتار دو
یا کھینچتے ہوئے سر بازار لے چلو
اُس کی گلی کو جانتا پہچانتا ہوں میں
وہ میری قتل گاہ ہے یہ مانتا ہوں میں
اُس کی گلی میں موت مقدر کی بات ہےشاہدؔ
یہ موت اہلِ وفا کی حیات ہے
میں خود بھی موت کا ہوں طلبگار لے چلو۔۔۔
اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو۔۔۔
Comments
Post a Comment