طلب کے دشت میں کوئی ملال رہ گیا ہے
زقَندیں بھرتا ہوا اک غزال رہ گیا ہے
سِلے ہیں زخم ' مگر خون رِستا رہتا ہے
رفو گری سے مِرا اَندمال رہ گیا ہے
کسی طرح سے غزل میں کمی نہیں آئے
.اسے بھی نظم کرو ' جو خیال رہ گیا ہے
میں پَل کے پل بھی ترے بعد مسکرائی نہیں.
پلک پہ اَشک ہیں ' دل میں ملال رہ گیا ہے
برائے دل کوئی تدبیر ہو رفو گری کی
اِس آینے میں جدائی کا بال رہ گیا ہے
ترے وصال کی لَو بُجھ چکی ہے اُور مِرا دل
چراغ خانہ ء خواب و خیال رہ گیا ہے
مِرے کہے کو پذیرائی کب مِلی
مِرا کمال ' سراپا سوال رہ گیا ہے
Comments
Post a Comment