Skip to main content

ہم کو ہوا ہے پھر سے ابہام محبت کا


ہم کو ہوا ہے پھر سے ابہام محبت کا
یا ہے فضا میں کوئی پیغام محبت کا

جب کی ہے محبت تو پھر دھوم بھی لازم ہے
بے نام نہ رہنے دے یہ نام محبت کا

ہم نے تو گزارا ہے مشقت کی طرح اس کو  
جانے ملا ہے کس کو آرام محبت کا

جیتے جی نہ جاں چھوڑے آسیب یہ ایسا ہے
 کیوں ہم پہ لگاتا ہے الزام محبت کا

آغاز محبت کا انجام سمجھنا مت
لازم ہے محبت کب انجام محبت کا

جاتے ہو تو لے جاؤ ہر شے یہاں سے اپنی
کیا بعد تمہارے ہے اب کام محبت کا

یہ شے نہیں ہے وہ جو خریدو تو تمہاری ہو
اب روز ہی بھرنا ہے یاں دام محبت کا

ایسا نہ کوئی دن ہے تم کو نہ پکارا ہو
ہر سمت دیا رکھا ہر شام محبت کا

ابرک یہاں پہ ہے بس محفل اسی نے لوٹی
پڑھتا ہے قصیدہ جو ناکام محبت کا

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں