Skip to main content

ترا غم رہے سلامت یہی میری زندگی ہے


ترا غم رہے سلامت یہی میری زندگی ہے
ترے غم سے میرے جاناں مرے دل میں روشنی ہے

مری مے کشی کا حاصل وہ شراب بن گئی ہے
جو ملی تری نظر سے جو تری نظر سے پی ہے

تجھے سامنے بٹھا کر سدا پوجتا رہوں میں
ہے یہی مری عبادت یہی میری بندگی ہے

مرے دل میں بسنے والے تجھے کیسے بھول جاؤں
ترا عشق میرا مذہب تری یاد زندگی ہے

مری التجا ہے تجھ سے مری بندگی بدل دے
کہ ترے کرم مری جاں مری لو لگی ہوئی ہے

میں فقیرِ آستاں ہوں مری لاج رکھ خدارا
یہ جبینِ شوق میری ترے در پہ جھک گئی ہے

میں فناؔ کی منزلوں میں ہوں فنا کے بعد زندہ
تری آرزو میں مٹ کر مجھے زندگی ملی ہے

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں