Skip to main content

ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں


ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں
تڑپ جائیے گا جو تڑپائیے گا

یہ دل ہے اسے دل ہی بس رہنے دیجے
کرم کیجئے گا تو پچھتائیے گا

کہیں چپ رہی ہے زبان محبت
نہ فرمائیے گا تو فرمائیے گا

بھلانا ہمارا مبارک مبارک
مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا

ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک
ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا

ترا جذبۂ شوق ہے بے حقیقت
ذرا پھر تو ارشاد فرمائیے گا

ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا

یہ مانا کہ دے کر ہمیں رنج فرقت
مداوائے فرقت نہ فرمائیے گا


محبت محبت ہی رہتی ہے لیکن
کہاں تک طبیعت کو بہلایئے گا


نہ ہوگا ہمارا ہی آغوش خالی
کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا

جنوں کی جگرؔ کوئی حد بھی ہے آخر
کہاں تک کسی پر ستم ڈھایئے گا

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں