Skip to main content

کچھ یوں کرو کہ آئے وہ مہماں ابھی ابھی


کچھ یوں کرو کہ آئے وہ مہماں ابھی ابھی
یا یہ کرو کہ جائے مری جاں ابھی ابھی

جھیلا ہے تجھ کو زندگی کچھ اس یقین سے
ہونے لگی ہے جیسے تو آساں ابھی ابھی

پھر اس کی یاد آئی بجھانے کے واسطے
ہم نے کیا تھا دل میں چراغاں ابھی ابھی

جانے مرے فراق پہ کیوں خوش ہے یہ جہاں
دیکھا ہے ہم نے غم کو بھی رقصاں ابھی ابھی

زندان میں ہی خوش رہو ، آباد تم رہو
جاری ہوا ہے وقت کا فرماں ابھی ابھی

اب حال ہم سے اس کا بھلا پوچھتے ہو کیا
پہلو کو جس نے دیکھا ہے ویراں ابھی ابھی

پوچھا جو اک خیال نے گر لوٹ آوں میں
بے ساختہ جواب تھا جاناں ابھی ابھی

اس کو ڈرا رہا ہے خزاں سے بھلا تو کیا
گلشن جو کر کے بیٹھا، بیاباں ابھی ابھی

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں