Skip to main content

چلو پھر سے مسکرائیں


چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں

جو گزر گئی ہیں راتیں
اُنہیں پھر جگا کے لائیں


جو بسر گئی ہیں باتیں
اُنہیں یاد میں بُلائیں

چلو پھر سے دل لگائیں
چلو پھر سے مسکرائیں

کسی شہ نشیں پہ جھلکی
وہ دھنک کسی قبا کی

کسی رگ میں کسمسائی
وہ کسک کسی ادا کی


کوئی حرفِ بے مروّت
کسی کُنجِِ لب سے پھُوٹا


وہ چھنک کے شیشۂ دل
تہِ بام پھر سے ٹوٹا

یہ مِلن کی نامِلن کی
یہ لگن کی اور جلن کی


جو سہی ہیں وارداتیں
جو گُزر گئی ہیں راتیں

جو بِسر گئی ہیں باتیں
کوئی ان کی دھُن بنائیں
کوئی ان کا گیت گائیں
چلو پھر سے مسکرائیں
چلو پھر سے دل جلائیں

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں