Skip to main content

Posts

Showing posts from 2018

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں

یہی تو چاہا تھا بس سانس تک رسائی ہو

یہی تو چاہا تھا بس سانس تک رسائی ہو سوال میرا کسی تخت و تاج کا کب تھا گئے دنوں کو میں سر پر اٹھائے پھرتا ہوں تمہارے بعد کسی کام کاج کا کب تھا مرض سے کیسے کیا جائے اب گلہ کوئی ذرا سا شوق یہاں بھی علاج کا کب تھا شبِ فراق کو ہر سحر ہنس کے کہتی ہے اسے بتاو کہ وعدہ ہی آج کا کب تھا

ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک

ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک بہت ہیں مرحلے باقی، ہمیں زنجیر کرنے تک ہزاروں بار سوچو گے، ہمیں تحریر کرنے تک ہمارا دل ہے پیمانہ، سو پیمانہ تو جھلکے گا چلو دو گھونٹ تم بھر لو، ہمیں تاثیر کرنے تک ہنر تکمیل سے پہلے، مصور بھی چُھپاتا ہے ذرا تم بھی چُھپا رکھو، ہیمں تعمیر کرنے تک وہ ہم کو روز لوٹتے ہیں، اداؤں سے، بہانوں سے خدا رکھے! لوٹیرے کو، ہمیں فقیر کرنے تک

ہم کو ہوا ہے پھر سے ابہام محبت کا

ہم کو ہوا ہے پھر سے ابہام محبت کا یا ہے فضا میں کوئی پیغام محبت کا جب کی ہے محبت تو پھر دھوم بھی لازم ہے بے نام نہ رہنے دے یہ نام محبت کا ہم نے تو گزارا ہے مشقت کی طرح اس کو    جانے ملا ہے کس کو آرام محبت کا جیتے جی نہ جاں چھوڑے آسیب یہ ایسا ہے   کیوں ہم پہ لگاتا ہے الزام محبت کا آغاز محبت کا انجام سمجھنا مت لازم ہے محبت کب انجام محبت کا جاتے ہو تو لے جاؤ ہر شے یہاں سے اپنی کیا بعد تمہارے ہے اب کام محبت کا یہ شے نہیں ہے وہ جو خریدو تو تمہاری ہو اب روز ہی بھرنا ہے یاں دام محبت کا ایسا نہ کوئی دن ہے تم کو نہ پکارا ہو ہر سمت دیا رکھا ہر شام محبت کا ابرک یہاں پہ ہے بس محفل اسی نے لوٹی پڑھتا ہے قصیدہ جو ناکام محبت کا

کچھ یوں کرو کہ آئے وہ مہماں ابھی ابھی

کچھ یوں کرو کہ آئے وہ مہماں ابھی ابھی یا یہ کرو کہ جائے مری جاں ابھی ابھی جھیلا ہے تجھ کو زندگی کچھ اس یقین سے ہونے لگی ہے جیسے تو آساں ابھی ابھی پھر اس کی یاد آئی بجھانے کے واسطے ہم نے کیا تھا دل میں چراغاں ابھی ابھی جانے مرے فراق پہ کیوں خوش ہے یہ جہاں دیکھا ہے ہم نے غم کو بھی رقصاں ابھی ابھی زندان میں ہی خوش رہو ، آباد تم رہو جاری ہوا ہے وقت کا فرماں ابھی ابھی اب حال ہم سے اس کا بھلا پوچھتے ہو کیا پہلو کو جس نے دیکھا ہے ویراں ابھی ابھی پوچھا جو اک خیال نے گر لوٹ آوں میں بے ساختہ جواب تھا جاناں ابھی ابھی اس کو ڈرا رہا ہے خزاں سے بھلا تو کیا گلشن جو کر کے بیٹھا، بیاباں ابھی ابھی

اگر بزمِ ہستی میں عورت نہ ہوتی

اگر بزمِ ہستی میں عورت نہ ہوتی خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی ستاروں کے دلکش فسانے نہ ہوتے بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی جبینوں پہ نورِ مسرت نہ کھلتا نگاہوں میں شانِ مروّت نہ ہوتی گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی فقیروں کو عرفانِ ہستی نہ ہوتا عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی مسافر سدا منزلوں پر بھٹکتے سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی ہر اِک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا نسمِ بہاراں میں نکہت نہ ہوتی خدائی کا انصاف خاموش رہتا ....سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی

پھر وہی اپنے خسارے جاناں

پھر وہی اپنے خسارے جاناں پھر وہی چاہ، سنوارے جاناں پھر وہی جاگتی راتیں میری پھر وہی روگ تمہارے جاناں پھر وہی وقت کا بپھرا ساگر پھر وہی دور کنارے جاناں پھر وہی شمع کی ٹھنڈی لو ہے پھر وہی بجھتے نظارے جاناں پھر وہی موڑ جدائی والے پھر وہی آس پکارے جاناں پھر وہی بند گلی یادوں کی پھر وہی شعر ہمارے جاناں پھر وہی بے بسی کا عالم ہے پھر وہی مانگ، ستارے جاناں پھر وہی خوش گماں ہے دل، ابرک پھر وہی تیرے اشارے جاناں

باتیں تیری الہام ہیں ____، جادو تری آواز

باتیں تیری الہام ہیں ____، جادو تری آواز رگ رگ میں اُترتی ہوئی خوشبو ، تری آواز بہتے چلے جاتے ہیں تہہ آب ستارے جیسے کہیں اُتری ہو لب جو ، تری آواز میں شام غریباں کی اداسی کا مسافر صحراؤں میں جیسے کوئی جگنو ، تری آواز لفظوں میں چھپائے ہوئے بے ربط دلاسے چنتی رہی شب بھر میرے آنسو ، تری آواز یہ ہجر کی شب بھیگ چلی ہے کہ مرے بعد روتی ہے کہیں کھول کے گیسو ، تری آواز محسن کے خیالوں میں اُترتی ہے سر شام رم جھم کی طرح باندھ کے گھنگھرو ، تری آواز

ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں

ستم عشق میں آپ آساں نہ سمجھیں تڑپ جائیے گا جو تڑپائیے گا یہ دل ہے اسے دل ہی بس رہنے دیجے کرم کیجئے گا تو پچھتائیے گا کہیں چپ رہی ہے زبان محبت نہ فرمائیے گا تو فرمائیے گا بھلانا ہمارا مبارک مبارک مگر شرط یہ ہے نہ یاد آئیے گا ہمیں بھی نہ اب چین آئے گا جب تک ان آنکھوں میں آنسو نہ بھر لائیے گا ترا جذبۂ شوق ہے بے حقیقت ذرا پھر تو ارشاد فرمائیے گا ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل کسے دیکھ کر آپ شرمایئے گا یہ مانا کہ دے کر ہمیں رنج فرقت مداوائے فرقت نہ فرمائیے گا محبت محبت ہی رہتی ہے لیکن کہاں تک طبیعت کو بہلایئے گا نہ ہوگا ہمارا ہی آغوش خالی کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا جنوں کی جگرؔ کوئی حد بھی ہے آخر کہاں تک کسی پر ستم ڈھایئے گا

اب تو آتے ہیں سبھی دل کو دکھانے والے

اب تو آتے ہیں سبھی دل کو دکھانے والے جانے کس راہ گئے ناز اٹھانے والے عشق میں پہلے تو بیمار بنا دیتے ہیں پھر پلٹتے ہی نہیں روگ لگانے والے کیا گزرتی ہے کسی پر یہ کہاں سوچتے ہیں کتنے بے درد ہیں یہ روٹھ کے جانے والے لاکھ تعویذ بنے لاکھ دعائیں بھی ہوئیں مگر آئے ہی نہیں جو نہ تھے آنے والے

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جاے

میں نظر سے پی رہا ہوں یہ سماں بدل نہ جاے نہ جُھکاو تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جاے ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی تیرا رِند گِرتے گِرتے کہیں پِھر سنبھل نہ جاے میری زندگی کے مالک میرے دل پہ ہاتھ رکھنا تیرے آنے کی خوشی میں میرا دَم نکل نہ جاے میرے اَشک بھی ہیں اس میں یہ شراب ابل نہ جاے میرا جام چُھونے والے تیرا ہاتھ جَل نہ جاے میں بنا تو لوں نشیمن کسی شاخِ گُلستاں پہ کہیں ساتھ آشیاں کے یہ چمن بھی جل نہ جاے مجھے پھُونکنے سے پہلے میرا دل نکال لینا یہ کسی کی ہے امانت، میرے ساتھ جل نہ جاے میرے آشیاں پہ یارب یہ کرم رہے گا کب تک کبھی بجلیاں گِرا دہں، کبھی شاخ ٹوٹ جاے

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں جو برس گئیں‌تو بہار ہیں جو ٹھہر گئیں تو قرار ہیں کبھی آ گئیں‌یونہی بے سبب کبھی چھا گیئں یونہی روزوشب کبھی شور ہیں کبھی چپ سی ہیں یہ بارشیں بھی تم سی ہیں کسی یاد میں، کسی رات کو اک دبی ہوئی سی راکھ کو کبھی یوں ہوا کے بجھا دیا کبھی خود سے خود کو جلا دیا کہیں‌بوند بوند میں گم سی ہیں یہ بارشیں بھی تم سی ہیں یہ بارشیں بھی تم سی ہی

اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو

اُس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو مجبور کرکے مجھ کو میرے یار لے چلو شاید یہ میرا وہم ہو،میرا خیال ہو ممکن ہے میرے بعد اُسے میرا ملال ہو پچھتا رہا ہو اب مجھے دَر سے اُٹھا کے وہ بیٹھا ہو میری راہ میں آنکھیں بچھا کے وہ اُس نے بھی تو کِیا تھا،مجھے پیار لے چلو اب اس گلی میں کوئی نہ آئے گا میرے بعد اس در پہ کون خون بہائے گا میرے بعد میں نے توسنگ و خشت سے ٹکرا کے اپنا سر گُلنار کر دئیے تھے لہو سے وہ بام و در پھر مُنتظر ہیں وہ درو دیوار لے چلو وہ جس نے میرے سینے کو زخموں سے بھر دیا چھُڑوا کے اپنا دَر مجھے دَر دَر کا کر دیا مانا کہ اس کے ظلم وستم سے ہوں نیم جاں پھر بھی میں سخت جاں ہوں پہنچ جاؤں گا وہاں سو بار جاؤں گا مجھے سو بار لے چلو دیوانہ کہہ کے لوگوں نے ہر بات ٹال دی دنیا نے میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی چاہو جو تم تو میرا مقدر سنوار دو یارو یہ میرے پاؤں کی بیڑی اُتار دو یا کھینچتے ہوئے سر بازار لے چلو اُس کی گلی کو جانتا پہچانتا ہوں میں وہ میری قتل گاہ ہے یہ مانتا ہوں میں اُس کی گلی میں موت مقدر کی بات ہےشاہدؔ یہ ...

میں وہ عاشق ہوں جسے دلاسہ بھی نہ ملا یار کا

میں وہ عاشق ہوں جسے دلاسہ بھی نہ ملا یار کا اب تو ناصح بھی ملے ٹھوکر پہ سجا دیتا ہوں . زہر بھرا پڑا ہے میرے لہجہ و جسم میں کوئی مقتول دیکھوں تو قاتل کو دعا دیتا ہوں . دیے ہیں زخم ، کچھ اس قدر اپنوں نے غیر دشمن جاں بھی ہو سر پہ بیٹھا دیتا ہوں تنہائیاں ، ویرانیاں بام و رقص ہیں اندر محفل حسن بھی ہو تو آنکھوں کو جُھکا دیتا ہوں دنیا کی بھیڑ میں ہیں ہم سفر ہم نشیں ملے کوئی غم گسار تو سینے سے لگا دیتا ہوں من میں عکس جاناں لیے در بدر ہوں تن کا عاشق گر ملے ہاتھ منہ پہ چلا دیتا ہوں اک سفر ازیت ہے باغی ، زندگی اب تو آہ ! کوئی قاتل تو ملے جاں اسکو تھما دیتا ہوں

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا وہ ن...

ترا غم رہے سلامت یہی میری زندگی ہے

ترا غم رہے سلامت یہی میری زندگی ہے ترے غم سے میرے جاناں مرے دل میں روشنی ہے مری مے کشی کا حاصل وہ شراب بن گئی ہے جو ملی تری نظر سے جو تری نظر سے پی ہے تجھے سامنے بٹھا کر سدا پوجتا رہوں میں ہے یہی مری عبادت یہی میری بندگی ہے مرے دل میں بسنے والے تجھے کیسے بھول جاؤں ترا عشق میرا مذہب تری یاد زندگی ہے مری التجا ہے تجھ سے مری بندگی بدل دے کہ ترے کرم مری جاں مری لو لگی ہوئی ہے میں فقیرِ آستاں ہوں مری لاج رکھ خدارا یہ جبینِ شوق میری ترے در پہ جھک گئی ہے میں فناؔ کی منزلوں میں ہوں فنا کے بعد زندہ تری آرزو میں مٹ کر مجھے زندگی ملی ہے

جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم

جیسے ہم بزم ہیں پھر یارِ طرح دار سے ہم رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم سر خوشی میں یونہی دل شاد و غزل خواں گزرے کوئے قاتل سے کبھی کوچۂ دلدار سے ہم کبھی منزل، کبھی رستے نے ہمیں ساتھ دیا ہر قدم الجھے رہے قافلہ سالار سے ہم ہم سے بے بہرہ ہوئی اب جرسِ گُل کی صدا ورنہ واقف تھے ہر اِک رنگ کی جھنکار سے ہم فیض جب چاہا جو کچھ چاہا سدا مانگ لیا ہاتھ پھیلا کے دلِ بے زر و دینار سے ہم

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں حسنِ یزداں سے تجھے حسنِ بتاں تک دیکھوں تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں میں تیرا حسن تیرے حسنِ بیاں تک دیکھوں میرے ویرانہء جاں میں تیری یادوں کے طفیل پھول کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں وقت نے ذہن میں دھندلادیئے تیرے خدوخال یوں تو میں توٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں تمناؤں کو زندہ آرزوؤں کو جواں کر لوں یہ شرمیلی نظر کہہ دے تو کچھ گستاخیاں کر لوں بہار آئی ہے بلبل درد دل کہتی ہے پھولوں سے کہو تو میں بھی اپنا درد دل تم سے بیاں کر لوں ہزاروں شوخ ارماں لے رہے ہیں چٹکیاں دل میں حیا ان کی اجازت دے تو کچھ بیباکیاں کر لوں کوئی صورت تو ہو دنیائے فانی میں بہلنے کی ٹھہر جا اے جوانی ماتم عمر رواں کر لوں چمن میں ہیں بہم پروانہ و شمع و گل و بلبل اجازت ہو تو میں بھی حال دل اپنا بیاں کر لوں کسے معلوم کب کس وقت کس پر گر پڑے...

میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آئنہ ہی بنی رہی

میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آئنہ ہی بنی رہی کبھی تم نہ سامنے آ سکے کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی وہ عجیب شام تھی آج تک میرے دل میں اس کا ملال ہے میری طرح جو تیری منتظر تیرے راستے میں کھڑی رہی کبھی وقف ہجر میں ہو گئی کبھی خواب وصل میں کھو گئی میں فقیر عشق بنی رہی میں اسیر یاد ہوئی رہی
زِیست آوارہ سہی ،   زُلفِ پریشاں کی طرح دِل بھی اب ٹوُٹ چُکا ہے تِرے پیماں کی طرح تو بہاروں کی طرح مجھ سے گُریزاں ہی سہی میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دِل و جاں کی طرح زندگی تیری تمنّا کے سِوا کُچھ بھی نہیں ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح تیرے عارض کے گُلابوں کی مہک اور بڑھے تو فروزاں ہی رہے شمعِ فروزاں کی طرح اُس کی قُربت میں گزُارے ہُوئے لمحوں کا خیال اب بھی پیوست ہے دِل میں کسی پیکاں کی طرح اُس کی آنکھوں میں بھی روشن ہیں تمنّا کے چراغ اُس کا دامن بھی ہے اب میرے گریباں کی طرح اب کسی جانِ تمنا کو بَھلا کیا معلوُم دِل سُلگتا ہے چراغِ تہہِ داماں کی طرح ایک دستک سی درِ دِل پہ سُنائی دی ہے کون گزُرا ہے نسیمِ چمَنِستاں کی طرح

طلب کے دشت میں کوئی ملال رہ گیا ہے

طلب کے دشت میں کوئی ملال رہ گیا ہے زقَندیں بھرتا ہوا اک غزال رہ گیا ہے سِلے ہیں زخم ' مگر خون رِستا رہتا ہے رفو گری سے مِرا اَندمال رہ گیا ہے کسی طرح سے غزل میں کمی نہیں آئے .اسے بھی نظم کرو ' جو خیال رہ گیا ہے میں پَل کے پل بھی ترے بعد مسکرائی نہیں. پلک پہ اَشک ہیں ' دل میں ملال رہ گیا ہے برائے دل کوئی تدبیر ہو رفو گری کی اِس آینے میں جدائی کا بال رہ گیا ہے ترے وصال کی لَو بُجھ چکی ہے اُور مِرا دل چراغ خانہ ء خواب و خیال رہ گیا ہے مِرے کہے کو پذیرائی کب مِلی مِرا کمال ' سراپا سوال رہ گیا ہے