Skip to main content

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

نہ یہ شیشہ، نہ یہ ساغر، نہ یہ پیمانہ بنے
 جانِ میخانہ، تری نرگسِ مستانہ بنے

 مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
 ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے

 پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہ گذار
 ذرّے جو خاک سے اٹھّے، وہ صنم خانہ بنے

 موجِ صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
 ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے

 کارفرما ہے فقط حُسن کا نیرنگِ کمال 
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے

 چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو
 ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے

 خاک پروانے کی برباد نہ کر بادِ صبا 
عین ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

 جرعہٴ مے تری مستی کی ادا ہو جائے 
موجِ صہبا تری ہر لغزشِ مستانہ بنے 

اُس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے 
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے

 رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
 جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں