Skip to main content
ساقی آنکهوں میں تری وہ بادہء سر جوش ہے
 اک نظر میں میکدہ کا میکدہ بے ہوش ہے

 یہ نہیں معلوم کوئی زینتِ آغوش ہے
 بے نیازِ ہوش کتنا بے نیازِ ہوش ہے


 عرضِ حال دل کا اس کی بزم میں اک جوش ہے 
دفتر_صد آرزو گویا لب_خاموش ہے

 ساقی آنکهوں میں تری وہ بادہء سر جوش ہے
 اک نظر میں میکدہ کا میکدہ بے ہوش ہے

 ایسے کهوےء ہیں کہ اپنا ہےنہ بیگانے کا ہوش
فکر_فردا ہےنہ مستوں کو خیال_دوش ہے

 جلوہ گاہ_ناز کے پردوں کا اٹهنا یاد ہے
 پهر ہوا کیا اور کیا دیکها یہ کس کو ہوش ہے 

عرصۂ محشر میں اک طوفان برپا کر دیا
 قطرہء خون_دل_عاشق میں کتنا جوش ہے

 ان کے رخ سے پردہ اٹھ جائے تو پهر معلوم ہو
 کس کو کتنی بے خودی ہے کس کو کتنا ہوش ہے

 ایک بیدم ہی نہیں تیار مرنے کے لئے 
جو ترے کوچے میں ہے اے جاں کفن بردوش ہے

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں