ساقی آنکهوں میں تری وہ بادہء سر جوش ہے
اک نظر میں میکدہ کا میکدہ بے ہوش ہے
یہ نہیں معلوم کوئی زینتِ آغوش ہے
بے نیازِ ہوش کتنا بے نیازِ ہوش ہے
عرضِ حال دل کا اس کی بزم میں اک جوش ہے
دفتر_صد آرزو گویا لب_خاموش ہے
ساقی آنکهوں میں تری وہ بادہء سر جوش ہے
اک نظر میں میکدہ کا میکدہ بے ہوش ہے
ایسے کهوےء ہیں کہ اپنا ہےنہ بیگانے کا ہوش
فکر_فردا ہےنہ مستوں کو خیال_دوش ہے
جلوہ گاہ_ناز کے پردوں کا اٹهنا یاد ہے
پهر ہوا کیا اور کیا دیکها یہ کس کو ہوش ہے
عرصۂ محشر میں اک طوفان برپا کر دیا
قطرہء خون_دل_عاشق میں کتنا جوش ہے
ان کے رخ سے پردہ اٹھ جائے تو پهر معلوم ہو
کس کو کتنی بے خودی ہے کس کو کتنا ہوش ہے
ایک بیدم ہی نہیں تیار مرنے کے لئے
جو ترے کوچے میں ہے اے جاں کفن بردوش ہے
Comments
Post a Comment