Skip to main content

Posts

Samandar Sary Sharab Hoty Tu Socho Kitny Fasad Hoty

Samandar Sary Sharab Hoty Tu Socho Kitny Fasad Hoty Gunah Na Hoty Sawab Hoty Tu Socho Kitny Fasad Hoty  Kisi Ke DiL Mein Kya Chupa Hy Bus Khuda Hi Janta Hy  DiL Agar Be-Naqab Hoty Tu Socho Kitny Fasad Hoty Thi Khamoshi Fitrat Hamari Jo Chand Barson Bhi Nibh Gayi Hy  Agar Hamary Moun Mein Jawab Hoty Tu Socho Kitny Fasad Hoty Hum Achy Thay Par Sada Logon Ki Nazar Mein Bury Rahy Kahen Hum Such Men Kharab Hoty Tu Socho Kitny Fasad Hoty.....
Recent posts

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں

یہی تو چاہا تھا بس سانس تک رسائی ہو

یہی تو چاہا تھا بس سانس تک رسائی ہو سوال میرا کسی تخت و تاج کا کب تھا گئے دنوں کو میں سر پر اٹھائے پھرتا ہوں تمہارے بعد کسی کام کاج کا کب تھا مرض سے کیسے کیا جائے اب گلہ کوئی ذرا سا شوق یہاں بھی علاج کا کب تھا شبِ فراق کو ہر سحر ہنس کے کہتی ہے اسے بتاو کہ وعدہ ہی آج کا کب تھا

ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک

ہمیں دریافت کرنے سے ہمیں تسخیر کرنے تک بہت ہیں مرحلے باقی، ہمیں زنجیر کرنے تک ہزاروں بار سوچو گے، ہمیں تحریر کرنے تک ہمارا دل ہے پیمانہ، سو پیمانہ تو جھلکے گا چلو دو گھونٹ تم بھر لو، ہمیں تاثیر کرنے تک ہنر تکمیل سے پہلے، مصور بھی چُھپاتا ہے ذرا تم بھی چُھپا رکھو، ہیمں تعمیر کرنے تک وہ ہم کو روز لوٹتے ہیں، اداؤں سے، بہانوں سے خدا رکھے! لوٹیرے کو، ہمیں فقیر کرنے تک

ہم کو ہوا ہے پھر سے ابہام محبت کا

ہم کو ہوا ہے پھر سے ابہام محبت کا یا ہے فضا میں کوئی پیغام محبت کا جب کی ہے محبت تو پھر دھوم بھی لازم ہے بے نام نہ رہنے دے یہ نام محبت کا ہم نے تو گزارا ہے مشقت کی طرح اس کو    جانے ملا ہے کس کو آرام محبت کا جیتے جی نہ جاں چھوڑے آسیب یہ ایسا ہے   کیوں ہم پہ لگاتا ہے الزام محبت کا آغاز محبت کا انجام سمجھنا مت لازم ہے محبت کب انجام محبت کا جاتے ہو تو لے جاؤ ہر شے یہاں سے اپنی کیا بعد تمہارے ہے اب کام محبت کا یہ شے نہیں ہے وہ جو خریدو تو تمہاری ہو اب روز ہی بھرنا ہے یاں دام محبت کا ایسا نہ کوئی دن ہے تم کو نہ پکارا ہو ہر سمت دیا رکھا ہر شام محبت کا ابرک یہاں پہ ہے بس محفل اسی نے لوٹی پڑھتا ہے قصیدہ جو ناکام محبت کا