میں غمزدہ بچھڑ کے پریشان تم بھی ہو
دل کو مرے اجاڑ کے ویران تم بھی ہو
میرا وجود ہو گیا جیسے کوئی کھنڈر
حالت بتا رہی ہے بیابان تم بھی ہو
رنج و الم کی دھوپ مرے دل پہ ہے سوار
اور دل میں لئے سائے کا ارمان تم بھی ہو
ہم کو گمان تک نہ تھا تم سےجدائی کا
کیا ہو گیا یہ سوچ کے حیران تم بھی ہو
میں بھی بہانے ڈھونڈتا رہتا ہوں دید کے
ملنے کی جستجو میں مری جان تم بھی ہو
کچھ غم ہیں روزگار کے کچھ زیست کے الم
دل میں انہیں کے ساتھ میں مہمان تم بھی ہو
نا کامیاں لکھیں تھیں مقدر میں زیست کے
میری شکستِ زیست کا سامان تم بھی ہو
میرا وجود جیسے چراغِ سحر کوئی
گرتی ہوئی حویلی کا دالان تم بھی ہو
چہروں پہ ہے شکست لکھی دونوں کے سراج
شرمندگی ہے اسکو پشیمان تم بھی ہو
Comments
Post a Comment