Skip to main content


میں غمزدہ بچھڑ کے پریشان تم بھی ہو
دل کو مرے اجاڑ کے ویران تم بھی ہو

میرا وجود ہو گیا جیسے کوئی کھنڈر
حالت بتا رہی ہے بیابان تم بھی ہو

رنج و الم کی دھوپ مرے دل پہ ہے سوار
اور دل میں لئے سائے کا ارمان تم بھی ہو

ہم کو گمان تک نہ تھا تم سےجدائی کا
کیا ہو گیا یہ سوچ کے حیران تم بھی ہو

میں بھی بہانے ڈھونڈتا رہتا ہوں دید کے
ملنے کی جستجو میں مری جان تم بھی ہو

کچھ غم ہیں روزگار کے کچھ زیست کے الم
دل میں انہیں کے ساتھ میں مہمان تم بھی ہو

نا کامیاں لکھیں تھیں مقدر میں زیست کے
میری شکستِ زیست کا سامان تم بھی ہو

میرا وجود جیسے چراغِ سحر کوئی
گرتی ہوئی حویلی کا دالان تم بھی ہو

چہروں پہ ہے شکست لکھی دونوں کے سراج
شرمندگی ہے اسکو پشیمان تم بھی ہو

Comments

Popular posts from this blog

hum cheen lain gy tum sy yeh shan e be niyazi

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں

دور بستی کہیں دل والے بسا بیٹھے ہیں ہم اسی موڑ پہ، ان پر ہی فدا بیٹھے ہیں وقت ساکن ہے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا ہے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس خود کو گنوا بیٹھے ہیں اب نہیں شہر میں رہتا کوئی ناصح کے سوا ہم محبت کو تماشا ہی بنا بیٹھے ہیں سوچئے حال خزاؤں میں گلستانوں کا جو بہاروں میں ہی رنگ اپنے اڑا بیٹھے ہیں جانے یہ کون جئے جاتا ہے سانسیں میری ہم تو اک عمر ہوئی، ہو کے فنا بیٹھے ہیں درد کہتے ہیں کہ بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے بس اسی شوق میں ہر رنج اٹھا بیٹھے ہیں کبھی شہرت تھی ہمارے بھی ہر اک آنسو کی اب نہ پوچھے کوئی دریا بھی بہا بیٹھے ہیں کوئی اپنا ہو تو، دے صدقہ اتارے وہ نظر ہم تو حیران ، گرفتارِ بلا بیٹھے ہے کوئی بندش، کوئی سختی، کوئی تعزیر نہیں ہم تری راہ میں راضی بہ رضا بیٹھے ہیں دو قدم کا ہو سفر یا ہو سفر عمروں کا لوگ ہر راہ میں بن بن کے خدا بیٹھے ہیں فاصلوں کو ہی جدائی نہ سمجھ لینا تم  تھام کر ہاتھ یہاں لوگ جدا بیٹھے ہیں ہم کہ ابرک تھے کبھی یکتا یگانہ خود میں بس اسی وہم میں ہم خود کو مٹا بیٹھے ہیں