Skip to main content

Posts

Showing posts from June, 2018
پرچھائیوں کے شہر کی تنہائیاں نہ پوچھ اپنا شریکِ غم .... کوئی اپنے سوا نہ  تھا 
اداسیوں کو ہواؤں کی زد میں لایا جائے  چلو کے غم سے کوئی قہقہہ بنایا جائے  یہ فیصلہ ہے کہ اس بار تیرے جانے پر  تجھے صدائیں نہ دی جائیں ! روٹھ جایا جائے  یہی سلوک روا ہے ہمارے ساتھ فقط ہمیں نہ یاد رکھا جائے بس بھلایا جائے ہمارے مرنے کا ! ہم نے تمام لوگوں کو بتا دیا ہے کہ بس آپ کو بتایا جائے  یہ رنگِ عشق بھی دیکھے جہاں ! اگر مجھ کو بروزِ حشر تری قبر سے اٹھایا جائے 
دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا​ آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا​ ​ کل گئے گزرے زمانوں کا خیال آئے گا​ آج اتنا بھی نہ راتوں کو منور رکھنا​ ​ اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے​ دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا​ ​ آس کب دل کو نہیں تھی ترے آ جانے کی​ پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا​ ​ ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہو فراز​ درد کیسا ہی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا​
زلف   ریشم ھے تو چہرہ  اُجالوں جیسا وہ تو لگتا ھے , تروتازہ  گلابوں جیسا اس کی باتیں تو ھیں گنگھور گھٹاءوں جیسی اُس کا مخمُور سا لہجہ ھے شرابوں جیسا خود ھی کھلتا ھے مگر مجھ پہ بھی تھوڑا تھوڑا اتنا مشکل ھے کہ لگتا ھے نصابوں جیسا اُس کے دل میں بھی کوئی بات رھی ھو گی مجھ سے روٹھے تو وہ لگتا ھے خرابوں جیسا جاگنا شب کا , مجھے اس نے سکھایا  رتجگوں میں بھی اُترتا ھے جو خوابوں حیسا
حجرۀ چشم تو اوروں کے لیے بند کیا تھا  آپ تو مالک و مختارہ ہیں آئیں جناب
تم مجھے بھول بھی جاو تو یہ حق ہے تم کو  میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے! لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد خِرامِ ناز نے فتنے اُٹھائے ہیں کیا کیا تغافُل اور بڑھا، اُس غزالِ رعنا کا فسُونِ غم نے بھی جادُو جگائے ہیں کیا کیا نظر بچا کے تِرے عِشوہ ہائے پِنہاں نے دِلوں میں دردِ محبّت اُٹھائے ہیں کیا کیا پیامِ حُسن، پیامِ جنُوں، پیامِ فنا تِری نِگہ نے فسانے سُنائے ہیں کیا کیا تمام حُسن کے جلوے، تمام محرُومی بَھرَم نِگاہ نے اپنے گنائے ہیں کیا کیا فراقؔ! راہِ وَ فا میں سُبک رَوِی تیری بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
طوفاں ہے تو کیا غم، مجھے آواز تو دیجے .!کیا بھول گۓ آپ ---میرے کچے گھڑے وہ 
اس کے اوصاف وخصائل نے مجھے جیت لیا  میرے مریدوں میں تھا وہ اک شخص پِیروں جیسا
میں نے جب یاد کیا یاد وہ آیا محسن  اس سے زیادہ اسے پابند وفا کیا کرنا 
ہم نے ہنس ہنس کے بھرم اہل وفا رکھا ہم بھی رو دیتے اگر عشق میں جھوٹے ہوتے
Qarb K Na Wafa K Hote Hain Sare Jagray Ana K Hote Hain Baat Neyat Ki Hai Sirf Warna Waqt Sare Dua K Hote Hain Bhol Jate Hain Mat Bura Kehna Log Putle Khata K Hote Hain Wo Jo Bzahr Ache Nahi Lagte Un Se Rishte Bla K Hote Hain Wo Hmara Hai Is Tarah Se Faiz Jese Bande Khuda K Hote Hain
کاجل تیرا بہہ بہہ کے رلائے مجھے اب بھی رہ رہ کے مجھے اب بھی پکارے تیرا آنچل۔
ہم نے شاموں کی سیاہی پہ قناعت کر لی... جا تجھے دان کئے دھوپ پہ وارے ہوئے دن....
ہم سے بچھڑے ہو تو محبوبِ نظر ہو کس کے ؟؟ آج کل کس کو مناتے ہو________کہاں ھو تے ہو
قبریں اپنے خالی پن کو روتی ہیں،  لوگ اب زندہ جسموں میں مرجاتے ہیں.
میں غمزدہ بچھڑ کے پریشان تم بھی ہو دل کو مرے اجاڑ کے ویران تم بھی ہو میرا وجود ہو گیا جیسے کوئی کھنڈر حالت بتا رہی ہے بیابان تم بھی ہو رنج و الم کی دھوپ مرے دل پہ ہے سوار اور دل میں لئے سائے کا ارمان تم بھی ہو ہم کو گمان تک نہ تھا تم سےجدائی کا کیا ہو گیا یہ سوچ کے حیران تم بھی ہو میں بھی بہانے ڈھونڈتا رہتا ہوں دید کے ملنے کی جستجو میں مری جان تم بھی ہو کچھ غم ہیں روزگار کے کچھ زیست کے الم دل میں انہیں کے ساتھ میں مہمان تم بھی ہو نا کامیاں لکھیں تھیں مقدر میں زیست کے میری شکستِ زیست کا سامان تم بھی ہو میرا وجود جیسے چراغِ سحر کوئی گرتی ہوئی حویلی کا دالان تم بھی ہو چہروں پہ ہے شکست لکھی دونوں کے سراج شرمندگی ہے اسکو پشیمان تم بھی ہو