مَیں اپنی آنکھ کو اس کا جہان دے دُوں کی
ا زمین کھینچ لُوں اور آسمان دے دُوں کیا!!
مَیں دُنیا زاد نہیں ہوں مُجھے نہیں منظور
مکان لے کے تُمھیں لامکان دے دُوں کیا
کہ ایک روز کھلا رہ گیا تھا آئینہ اگر
گواہ بنوں تو بیان دے دُوں کیا !!!
اُڑے کُچھ ایسے کہ میرا نشان تک نہ رہے
مَیں اپنی خاک کو اتنی اُڑان دے دُوں کیا
یہ لگ رہا ہے کہ نا خُوش ہو دوستی میں تُم
تُمھارے ہاتھ میں تیر و کمان دے دُوں کیا
سمجھ نہیں رہے بے رنگ آنسووں کا کہا
انہیں مَیں سُرخ لہو کی زُبان دے دُوں کیا
سُنا ہے زندگی کوئی تہِ سمندر ہے
بھنور کے ہاتھ میں یہ بادبان دے دُوں کیا
یہ فیصلہ مُجھے کرنا ہے ٹھنڈے دل سے
رضاؔ نہیں بدلتا زمانہ تو جان دے دُوں کیا
Comments
Post a Comment