درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کے اسیروں پہ کیا گزرتی ہے
تعلقات کبهی نہ اس قدر ٹوٹے تهے
کہ
تری یاد بهی دل سے خفا گزرتی ہے
وه اب ملے بهی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بُجهے چراغ کو چُهو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی طرف مگر
گلی سے آج بهی اُن کی صدا گزرتی ہے
یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بهنور سے بچ تو گئ کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کہ موجِ بلا گزرتی ہے
نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں #محسن
درِ قبول سے بچ کے دعا گزرتی ہے
Comments
Post a Comment